لیاری کا منفرد سکول جہاں بچے کے ساتھ ماں کو بھی داخلہ لینا پڑتا ہے: ’مجھے یہاں اپنی زندگی کا مقصد ملا‘

’جب میں اپنے بیٹے کے ایڈمیشن کے لیے اس سکول میں گئی تو مجھے کہا گیا کہ بیٹے کے ساتھ مجھے بھی یہاں داخلہ لینا ہو گا۔ مجھے لگا تھا کہ یہاں میری سلائی کڑھائی کے کام کو مزید بہتر بنایا جائے گا مگر یہاں پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا یہ سکول عام سکولوں سے بلکل مختلف ہے جہاں مجھے پڑھایا بھی گیا اور صدمے سے نکالنے کے لیے یہاں کئی تھراپی سیشنز بھی دیے گئے۔‘

یہ الفاظ تہمینہ کے ہیں جو کم عمری کی شادی اور پھر بچے کے بعد طلاق کے صدمے سے گزر کر اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کا مقصد کراچی کے اس منفرد سکول سے حاصل کر پائیں۔

ہم میں سے تقریباً ہر شخص کے ذہن میں سکول کا نام سن کر ایک ایسی عمارت کا تصور آتا ہے جہاں چھوٹے بڑے ہر طرح کے بچے بستہ اٹھا کر سکول آتے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

لیکن ہم آپ کوآج ہم بتاتے ہیں ایک ایسے خاص سکول کے بارے میں جہاں داخلے کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ بچے کے ساتھ اس کی والدہ کو بھی داخلہ لینا ہو گا۔

کراچی کے علاقے لیاری میں واقع ’مدر چائلڈ ٹراما انفومڈ سکول‘ میں ایسے بچے اپنی ماؤں کے ساتھ داخلہ لینے کے اہل ہوتے ہیں جو زندگی کے کسی حادثے کے سبب صدمے سے دوچار ہوئے ہوں اور ان کو زندگی میں آگے بڑھنے کی وجہ اور مواقع سمجھ نہ آ رہے ہوں۔

یہ سکول سبینا کتھری چلا رہی ہیں جو خود آٹھ سال کی عمر میں ماں سے علیحدگی کا صدمہ جھیل چکی ہیں۔

اپنے بچپن کے صدمے سے شروع ہونے والی کہانی نےسبینا کتھری کو لیاری میں ایک ایسے سکول کھولنے پر راغب کیا جو آج کئی بچوں کے لیے زندگی میں پیش آنے والے مختلف صدموں سے نکالنے کی وجہ بن رہا ہے۔

اس سکول کے پیچھے سبینا کی سوچ کیا تھی اور اس سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور ان کے والدین کی زندگی کیسے بدلی، اس کے لیے ہم آپ کو لیے چلتے ہیں لیاری اور وہاں کی ایک مختلف تصویر سے آپ کو روشناس کرواتے ہیں۔

 سبینا کتھری
،تصویر کا کیپشنسبینا کھتری اس سکول کو ایک تحفہ سمجھتی ہیں جو ایک ماں کا دوسری ماں کے لیے ہے

ایک ماں کا دوسری ماں کے لیے تحفہ

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

سبینا کھتری اس سکول کو ایک تحفہ سمجھتی ہیں جو ایک ماں کا دوسری ماں کے لیے ہے۔ انھوں نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ ’میں آٹھ سال کی تھی جب میں اپنی والدہ سے علیحدہ ہو گئی تھی۔ مجھے اُس وقت سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے پر وہ صدمہ کہیں نا کہیں میرے اندر رہ گیا۔‘

2006 میں سبینا کھتری نے لیاری میں ایک سکول کی عمارت کو لے کر اپنے مشن کا آغاز کیا۔

یہ سکول پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک ایسا تعلیمی نظام فراہم کرتا ہے جہاں سبینا کے مطابق انسانی اقدار، ذہنی صحت اور فلاح و بہبود جیسے ماحول پر زور دیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ کراچی کے علاقے لیاری میں گینگ وار اور سٹریٹ کرائم کی مختلف کہانیاں زبان زد خاص و عام ہونے کے باعث جس وقت سبینا کتری سے ملنے ہم لیاری پہنچے تو ذہن میں ہچکچاہٹ غالب تھی تاہم پرانی عمارتوں میں رہنے والے لوگ، بے تحاشا رش، کاروبار میں مصروف لوگوں کو دیکھ کر علاقے کی کافی مختلف تصویر عیاں ہوئی۔

اسی تناظر میں سبینا کتھری نے بتایا کہ ’امیر گھروں کے بچوں نے لڑائی قتل و غارت حقیقت میں نہیں دیکھی وہ ویڈیو گیمز میں ایسی چیزیں دیکھتے ہیں مگر لیاری کے بچوں نے وہ سب اپنی آنکھوں سے اصل میں دیکھا ہے۔‘

سبینا کے مطابق اُن کو احساس ہوا کہ لیاری میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا اثر بچوں پر لازمی پڑ رہا ہے۔

اُنھوں نے ٹھان لی کہ جیسے وہ اپنے بچپن کے صدمے سے نکالی ہیں ویسے ہی وہ لیاری کے ہر بچے کو صدمے سے نکالیں گی۔

سبینا کا ماننا ہے کہ کئی بچے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب کسی صدمے سے نکل کا تعلیم حاصل کر بھی لیں تو ایک عمر کو پہنچ کر اُن کو لگتا ہے کہ اُن کو والدین کے سوچنے سمجھنے کا طریقہ اُن سے مختلف ہے۔

اسی وجہ سے سبینا نے اس سکول میں بچوں کے ساتھ ساتھ ماؤں کی ذہنی صحت پر کام کرنے کا سوچا اور آج اس سکول میں پڑھنے والا بچہ اپنی ماں کے ہمراہ سکول میں داخلہ حاصل کرتا ہے۔

ماں اور بچے کی ذہنی صحت پر کام کرنے والے اس انوکھے سکول میں اب تک کئی بچے بڑھ کر ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ماں کو ایک ایسا ماحول دینا ضروری ہے جہاں وہ اپنے غم، صدمے پیچھے چھوڑ کر اپنے بچے کے ہنر کو پہچان کر ایک ساتھ آگے بڑھیں۔‘

بیٹے کے ساتھ ماں کے داخلے کی شرط

یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ لیاری کے حالات کو دیکھتے ہوئے جو سکول شروع ہوا تھا آج وہ مختلف صدموں کا سامنا کرنے والی ماؤوں اور بچوں کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔

سبینا کا مشن کس قدر کامیاب رہا اس کی سب سے بڑی مثال لیاری سے تعلق رکھنے والی تہمینہ ہیں۔

تہمینہ کی 16 سال کی عمر میں شادی ہو گئی تھی اور ایک سال بعد ہی وہ ایک بچے کی ماں بھی بن گئیں۔ مگر کم عمری کی شادی صرف تین سال ہی چل سکی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میری طلاق کے بعد مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں ایک بچے کے ساتھ کیا کروں۔‘

تہمینہ پاکستان میں رہنے والی ان کئی لڑکیوں کی طرح ہیں جو اعلی تعلیم حاصل کرنے کا خواب رکھتی تھیں۔ اسی وجہ سے تہمینہ نے سوچا کہ وہ کچھ کام کر کے اپنی تعلیم دوبارہ سے شروع کریں۔

جب کسی جوڑے میں طلاق ہوتی ہے تو اُس کا براہ راست اثر بچوں کی ذہنی صحت پر بھی پڑتا ہے۔ تہمینہ کے بیٹے نے بھی اپنی ماں کے ساتھ ہوتے ظلم کو دیکھا جس کے ساتھ وہ بڑا ہوا۔

تہمینہ کو اپنے علاقے میں ہی کسی نے اُن کے بیٹے کے لیے اس سکول کے بارے میں بتایا۔ تاہم انھیں کہا گیا کہ بیٹے کے ساتھ خود انھیں بھی اس سکول میں داخلہ لینا ہو گا۔

تہمینہ سلائی کڑھائی کا کام جانتی تھیں تو اُن کو لگا اس سکول میں وہ اس کام کے بارے میں جان کر اسے مزید بہتر بنائیں گی۔

مگر اُنھیں یہاں پہنچ کر اندازہ ہوا یہ سکول عام سکولوں سے بلکل مختلف ہے۔

’مجھے کئی تھراپی سیشنز دیے گئے۔ مجھے اور میرے بیٹے کو ان صدمات سے نکلنے میں تقریباً چار سال لگے۔‘

تہمینہ نے اس سکول سے میٹرک، انٹر اور اس کے بعد بی اے کیا اور اب وہ اس سکول میں ہی کام کر رہی ہیں جبکہ ان کا بیٹا اس سکول میں زیرِ تعلیم ہے۔

تہمینہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ اُن کے علاقے میں ایسا سکول موجود ہے جس نے اُن کی زندگی کو بدل دیا اور اُن کو گزارنے کی ایک وجہ دی۔

’اس سکول سے مجھے پتا چلا کہ میری زندگی کا اپنے لیے بھی کوئی مقصد ہے۔ صرف شادی اور بچہ ہی میری زندگی کا مقصد نہیں تھا۔ مجھے اپنے لیے کچھ کرنا ہے۔‘

’سکول میں موجود استادوں نے اندر کے ہنر کو پہچانا‘

محمد عبداللہ بھی انھی نوجوانوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اسی سکول سے حاصل کی اور اب وہ اس وقت ایک یونیورسٹی سے بی بی اے کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔

عبداللہ اپنی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ ایکٹنگ بھی کرتے ہیں۔

عبداللہ نے بتایا کہ جب اُنھوں نے اس سکول میں تعلیم حاصل کرنی شروع کی تو ایک خاندانی مسئلے کی وجہ سے وہ صدمے میں تھے۔

’مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں نے زندگی میں کیا کرنا ہے ۔ میرا پڑھنے کا دل نہیں چاہتا تھا۔ میرے اندر کیا قابلبیت ہے مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا۔‘

عبداللہ کا کہنا ہے کہ اس سکول میں موجود استادوں نے اُن کے ہنر کو پہچانا اور انھیں غم سے نکال کر وہاں لے آئے جو اُنھیں خود بھی نہیں پتا تھا۔

عبداللہ نے سکول میں ہی اداکاری شروع کر دی۔

جب انسان کسی مشکل وقت سے گزار رہا ہوتا ہے تو اُس وقت اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کس سے اس بارے میں بات کرے اور عبداللہ کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا۔ تاہم ان کے مطابق اس سکول نے اُن کوایسا ماحول فراہم کیا جہاں وہ اپنے استادوں پر اعتماد کر سکتے تھے اور اب صدمے سے لڑ کر آج وہ ایک بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔

سبینا کھتری اس سکول کو ایک تحفہ سمجھتی ہیں جو ایک ماں کا دوسری ماں کے لیے ہے۔

بچوں کی طرح ماں کے لیے بھی سلیبس رکھا گیا ہے

اس سکول میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ماں اور بچہ ایک ساتھ کلاس لینے آئیں۔

اگر کوئی ماں یہ کہے کہ وہ کام کرتی ہیں یا وہ نہیں آسکتیں تو اُن کو ایڈمیشن نہیں دیا جاتا۔

سبینا کھتری کا کہنا ہے کہ ’ہم نے داخلہ حاصل کرنے کا معیار بہت سخت رکھا ہے۔ اور ہم اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔‘

اس سکول میں بچے کو پہلی جماعت سے داخلہ لینا پڑتا ہے۔ جہاں بچہ ہفتے میں پانچ دن کلاس لینے آتا ہے وہاں ماں کا ہفتے میں تین دن آنا ضروری ہے۔ بچوں کی طرح ماں کے لیے بھی سلیبس رکھا گیا ہے۔ جس میں کونسلنگ سیشنز بھی شامل ہیں۔

سبینا کھتری نے سکول کی کامیابی کو دیکھتے اس کو نہ صرف پورے کراچی بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ کراچی میں اس کی دوسری برانچ کٹی پہاڑی پر بنائی گئی ہے۔

اس سکول میں وزٹ کے دوران ہم نے سکول میں مختلف کلاسوں کا رخ کیا وہاں پہنچ کر حیرانی ہوئی کہ کلاس روم میں روایتی بلیک بورڈ موجود ہی نہیں تھا۔ بلکہ کرسیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے زمین پر بیٹھ کر کھیلنے کا بھی خوب صورت انتظام ہے۔

سبینا کھتری جب کلاس میں بچوں سے ملنے پہنچیں تو یک دم تمام بچے سبینا کھتری کو گلے لگانے آگئے۔

یہ منظردیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی بچہ اپنی ماں سےکافی دیر بعد مل رہا ہو۔

سبینا کھتری نے بتایا کہ یہ سب بچے کسی نہ کسی مشکل وقت سے گزرے ہیں۔ مگر اس سکول میں ملنے والی محبت، شفقت نے اُنھیں غموں سے لڑنے کا حوصلہ دیا ہے۔

Source : https://bbcurdu.com

Related Posts

پاکستان مختلف ثقافتی اکائیوں کا ایک خوبصورت گلدستہ، خالد مقبول

ایم کیوایم پاکستان کے چیئر مین ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان مختلف ثقافتی اکائیوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے، اس ملک کی تعمیر و ترقی میں…

وہ گاؤں جہاں گالی دینے پر 500 روپے جرمانہ ہو گا: ’سی سی ٹی وی سے لوگوں پر نظر رکھی جائے گی‘

’اگر کوئی میری ماں یا بہن کو گالی دے گا تو مجھے بہت غصہ آئے گا۔ اس کی روک تھام ہونی چاہیے اور اسی لیے ہمارے گاؤں نے اس بارے…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *